(ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا)لگ بھگ سات برسوں سے قومی دارلحکومت دہلی سمیت ملک کی متعدد ریاستوں ، مرکز کے زیر انتظام علاقوں اورملک کے لگ بھگ سبھی صوبوں کو ڈینگو،چکن گنیا،اوراس کے خاندان سے تعلق رکھنے والے دیگر مہلک ترین فلوٗ نے سراسیمہ کررکھا ہے۔مذکورہ بالا امراض اس وقت اور بھی زیادہ شدید ہوکر وبائی شکل اختیار کرلیتے ہیں جب موسم باراں اپنا رنگ دکھا تا ہے۔ چناں چہ اس سال بھی اطلاعات کافی حوصلہ آزما ہیں اور ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دواکی‘‘ کا منظر صاف طور پریہ وبائی امراض پیش کررہے ہیں۔ مورخہ07ا گست2017کو اخبارات میں خبریہ نمایاں رہی کہ’اس سال برسات کا موسم آنے کے ساتھ ہی دہلی میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ڈینگو کے معاملات بڑھ کر 185 تک پہنچ گئے ہیں،جبکہچکن گنیا کے 45 نئے معاملے بھی سامنے آئے ہیں۔یہ اعداد شمار وہ ہیں جن تک سرکاری محکمہ کی پہنچ ممکن ہوسکی ہے،اگراس میں وہ مریض بھی شامل ہوتے جو سرکاری اسپتالوں میں معالجین اور معالجات سے وابستہ عملہ کی جھڑکیوں ،فرائض کے تئیں ان کیعدم دلچسپی اورمریضوں و ان کے تیمارداروں کے ساتھ نارواسلوک کی وجہ سے سرکاری اسپتالوں میں جانے کی ہمت نہیں جٹاپاتے اور مجبوراً گلی محلوں کے اطباء کے سامنے ہی خود کو لٹا دیتے ہیں، اگرانہیں بھی اس فہرست شامل کردیا جائے تو یہ تعداد کافی زیادہ حیران کن ہوجائے گی۔ویسے ابھی تو یہ ابتدائی اعداد وشمار ہیں مستقبل قریب میں اس تعداد میں بڑی حدتک اضافہ ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔
خیال رہے کہ دہلی میونسپل کارپوریشن کی جانب سے جاری تازہ ہفتہ وار اعداد و شمار میں یہ اطلاع دی گئی ہے ۔یہ اعداد شمار دہلی کے ہیں،جبکہ قومی سطح پر فلو کے حملے بالخصوص ڈینگو کے سلسلے میں گز شتہ 4 جو لا ئی 2017 کو مرکزی وزیر صحت وخاندانی بہبود مسٹر جے پی نڈا نے جو رپورٹ پیش کی ہے، اس کے مطابق4جولائی تک ملک گیر سطح پر18,760افراد ڈینگو کا شکار ہوچکے تھے۔رپورٹ میں کہا گیاہے کہ اس سال اب تک ڈینگو کے 18,760 معاملے سامنے آچکے ہیں۔ وزارت صحت نے ڈینگوکے حملے میں شدت کی اہم وجہ مانسون کے جلد آنے کو بتایاتھا۔ سب سے زیادہ کیس کیرل میں درج ہوئے جہاں دو جولائی تک 9,104 لوگوں اس بیماری سے دوچار پائے گئے۔ دوسرے مقام پر تمل ناڈو رہا جہاں 4,174 لوگوں میں یہ بیماری پائی گئی۔ سوال یہ ہے کہ ڈینگو کی وبا ملک میں کوئی پہلی بار حملہ آور نہیں ہوئی ہے ،بلکہ تقریباً2011سے ہی یہ وبا ہندوستانی عوام کو اپنا نوالہ بنارہی ہے ،پھر اس سے بچاؤ کیلئے اس طویل مدت میں کوئی مؤثر پلاننگ کیوں نہیں کی گئی۔مسٹر جے پی نڈا کی اسی میٹنگ میں یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ اس وقت ہندوستان پر آفت بن کر نازل ہونے والی وباؤں میں صرف ڈینگو ہی نہیں ،بلکہ فلوٗ کی برادری سے تعلق رکھنے والی دوسری بیماریاں مثلاً چکن گنیا اورملیریا وغیرہ بھی پیش پیش ہیں۔ظاہر سی بات ہے کہ مذکورہ صورت حال میں معالج کیلئے یہ طے کرنا آسان نہیں رہتا کہ مریض کو کس فلو کے جراثیم نے متاثر کیا ہے ۔مطلب یہ کہ وہ ملیریا کا شکار ہے،ٹائفائڈیا چکن گنیا یا ڈینگوکا نشانہ بناہے، یہ طے کرنے میں وقت لگ جاتا ہے،اس لئے کہ مذکورہ بالا سبھی بخاروں کی ابتدائی علامات میں یکسانیت پائی جاتی ہے،لہذ اصل بخار تک پہنچنے کیلئے پیتھالوجیکل جانچ ہی واحد راستہ بچ جاتا ہے،جس کی رپورٹ آتے آتے مزید ایک دورز صرف ہوجاتے ہیں اور اسطرح فلوکا مرض مہلک روپ دھار لیتا ہے۔
اس سال اطمینان بخش بات یہ ہے کہ مچھر سے پیدا ہونے والی ان بیماریوں سے اب تک کسی کی موت ہونے کی کوئی خبر نہیں ہے۔جبکہ قومی خطہ راجدھانی دہلی میں چکن گنیا اور ڈینگو لاحق ہونے کے افزوں معاملات کے مد نظر سکریٹری (صحت وکنبہ بہبود) نے میونسپل باڈیوں اور دہلی سرکار کے افسروں سے آئندہ دو مہینوں کے دوران ازحد خبردار رہنے کو کہاہے اور انہیں بیداری پھیلانے، چکن گنیا کے تدارک اور روک تھام کے سلسلے میں اپنی تمام سرگرمیوں اور اقدامات کو منظم کرنے کی تلقین کی ہے ،تاکہ صورت حال پر مؤثر طریقہ سے قابو پایا جاسکے اور حالات بگڑنے نہ پائیں۔ وزیر صحت کی ہدایت پر سکریٹری سی کے مشرا نے وزارت صحت کے تحت پانی سے پھیلنے والی بیماریوں پر قابو پانے کے قومی پروگرام (این وی بی ڈی سی پی) کے ذمہ داران، دہلی حکومت اور میونسپل کارپوریشنوں سے ان کی آئی ای سی سرگرمیوں میں تال میل پیدا کرنے کیلئے کہاہے۔یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئے کہ ہر بیماری یا وبا ء کیلئے راست طور پر سرکاروں کو ہی ذمہ ٹھہرا کر ہم اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ نہیں ہوسکتے ۔بحیثیت ایک ذمہ دار شہری ہمارابھی فریضہ ہے کہ اپنے گردو پیش کو ،اپنے اعزاء واقرباء اور پڑوسیوں کو اس جانب متوجہ کرتے رہا کریں ،کہ وہ اپنے گھروں کے اور محلوں میں صاف صفائی اور پانی کے استعمال میں محتاط رویہ اختیار کرکے خود اور اپنے اہل وعیا ل کو بھی فلو کی قیامت خیزی سے محفوظ رکھیں ۔ و ا ضح رہے کہ ڈینگوپھیلانے والا مچھر انسانوں کو طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت کاٹتا ہے۔اگر اس کا دھیان رکھا جائے اور طلوع وغروب آفتاب کے وقت ہم اپنے طورپر گھروں کو الرٹ رکھنے کی ذمہ نبھالیں تو پورے کنبہ کو اس سے بڑی حدتک محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ڈینگو کی ابتدائی علامات کچھ یوں ہیں’’ اچانک تیز بخار ،سر میں درد ، جوڑوں میں درد،آنکھوں کے پیچھے درد ،جسم میں درد،جسم پر سرخ دھبے،بے ہوشی ،پیشاب کے رنگ کا گہرا ہوجا نا اور کم آنا،دھڑکن کا تیز ہونا،پیٹ میں درد،قے ہونا‘‘وغیرہ وغیر ہ۔ اگر یہ علامات بگڑ جائیں تو ڈینگو بخار ہیمرجک بخار میں تبدیل ہوکر پہلے تو جسم سے خون کا رساؤ شروع کردیتا ہے۔جسم میں پلیٹ لٹیس کی سطح کم ہوجاتی ہے اور خون میں شامل پلازما بھی خارج ہونے لگتا ہے۔ بعد میں بلڈ پریشر بہت لو ہوجاتا ہے، جگر کام کرنا چھوڑ دیتا ہے اور انسان ’’کوما‘‘ میں چلا جاتا ہے۔ڈینگو بخار کی تشخیص بلڈ ٹیسٹ سے ہوتی ہے۔ اس کی تشخیص ہوتے ہی ڈاکٹرزمریض کے جسم میں نمکیات کی مقدار کو بڑھاتے ہیں۔درد کم کرنے کیلئے ادویات دیتے ہیں۔ اگر بخار ہمیرجک ہو تو ڈاکٹرز مریض کو پلیٹ لیٹس لگاتے ہیں۔ جب طبیعت ٹھیک ہونے لگے تو مریض کو پانی، تازہ جوس یخنی زیادہ دی جاتی ہے تاکہ اسم میں قوت مدافعت پیدا ہو۔خیال رہے کہ اس بخار سے بچنے کے لئے اگر کچھ حفاظتی اقدامات کر لئے جائیں تو بہت موزوں ہوگا۔سب سے پہلے پانی کہیں بھی کھڑا نہ ہونے دیں۔گھر میں لگے پودوں، گملوں اور کیاریوں میں پانی نہ کھڑا ہونے دیں۔ایک دن چھوڑ کر پودوں کو پانی دیا جائے۔گھر میں پانی ذخیرہ نہ کیا جائے۔ اگر ضروری ہو تو پھر اسے ڈھانپ دیا جائے۔اسٹور کی صفائی رکھی جائے، فالتو سامان اور پرانے ٹائروں کو تلف کردیا جا ئے ۔ دروازوں اور کھڑکیوں پر جالی لگوائیں۔برسات کے موسم میں باہر کی چیزیں کھانے سے گریز کریں ،کیونکہ کئی بار بیماری کے خلاف مزاحمت کم ہونے سے بیکٹیریا کا حملہ تیزی سے ہوتا ہے۔فرائیڈ فوڈ نہ کھائیں، کیو نکہ عمل انہضام اس موسم میں سست پڑ جاتا ہے، جس سے acidity کا مسئلہ ہو سکتا ہے۔بارش کے موسم میں تلسی، ادرک،پودینہ، ہلدی، زیرہ اور کرھی پتہ کا استعمال کریں، کیونکہ یہ ہاضمہ کو مضبوط بناتے ہیں اور پیٹ سے متعلق بیماریوں سے دور رکھتے ہیں۔بارش میں پیٹ کی صفائی کے لئے تھوڑی مقدار میں شہد کا استعمال فائدہ مند ہوتا ہے،شہد آنتوں کو صاف کرتا ہے۔مریض وٹامن سی سے بھرپور پھل جیسے سنترے وغیرہ کھائیں تو اپنی قوت دفاع کو مضبوط رکھ سکتے ہیں۔مانسون کے دوران کئی طرح کی جلد سے متعلق اور سردی زکام جیسی بیماریوں کا اندیشہ رہتا ہے۔ ما نسو ن کے دوران بہتر صحت کیلئے کچھ خاص باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ماہرین نے مانسون کو دیکھتے ہوئے صحت سے متعلق کچھ اقدامات بتائے ہیں۔ اگر آپ بارش میں بھیگ گئے ہیں تو نہانا نہ بھولیں، اس سے آپ انفیکشن سے محفوظ رہیں گے۔ بارش کے پانی میں موجودپالیوشن آپ کے بال پر برا اثر ڈال سکتے ہیں اور آپ کے بال الجھے اور روکھے ہو سکتے ہیں۔بالوں کے جھڑنے کا مسئلہ بھی ہو سکتا ہے۔لہذا بارش میں بھیگنے پر بال کو اچھے شیمپو سے دھو لیں اور کنڈیشنر لگائیں ۔بالوں کو صحت مند رکھنے کے لئے ہفتے میں کم از کم ایک بار تیل ضرور لگائے۔مانسون کے دوران حفظان صحت کے تناظر میں ناخن کی صفائی پر کم توجہ دی جاتی ہے، لیکن ان کی صفائی بھی بے حد ضروری ہے، کیونکہ ان کے ذریعے جسم میں گندگی اور نقصان دہ بیکٹیریا داخل کر سکتے ہیں۔اجمالی طور پر ہمیں اتنی بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ موسم باراں میں حملہ آور ہونے والے فلو کا سب سے بڑ دشمن صاف صفائی ہے۔لہذا تمام شہریوں کو پینے کا صاف پانی میسر ہونا چاہئے اس کا نظم بھی صرف سرکار نہیں کرسکتی اپنی صحت کیلئے ہمیں بھی اپنی ذمہ داری نبھانی ہوگی۔ اگر لوگ کھانے سے پہلے اپنے ہاتھ دھونے کی عادت ڈال لیں تو آدھی بیماریاں اسی سے کم ہو جاتی ہیں۔ ٹائیفائڈ‘ ڈائریا اور آشوب چشم جیسی بیماریاں گندے ہاتھوں سے پھیلتی ہیں۔ بیماری کا علاج تشخیص ہے اور پھر ڈاکٹر کی تجویز کردہ دوا ہے۔ لوگوں کو صرف ڈاکٹر کی تجویز کردہ دوا ہی کھانی چاہئے۔ اسی طرح بچوں کو حفاظتی ٹیکے ضرور لگوانے چاہئیں۔ہمیشہ اپنے ہاتھ پیر کے ناخن چھوٹے رکھیں اور ان کو صاف رکھیں۔ مانسون میں سردی زکام ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔بارش کے پانی میں بیکٹیریا پنپتے ہیں، لہذا اپنے پاس Hand sanitizer ضرور رکھیں۔
(مضمون نگار کے خیالات سے ادارئے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے)